(مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ)(البقرة : 261) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’ان لوگوں کی مثال جو اللہ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں، اس دانے کی سی ہے جس میں سے سات بالیاں نکلیں اور ہر بالی میں سو دانے ہوں اور اللہ جس کے لیے چاہے (اجر) بڑھا دیتا ہے اور اللہ وسعت والا ،خوب جاننے والا ہے۔‘‘
حدیث 1:
(( عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكِ ، قَالَ: كَانَ مَوْضِعُ مَسْجِدِ النَّبِيِّ ﷺ لِبَنِي النَّجَارِ ، وَكَانَ فِيْهِ نَحْلٌ وَمَقَابِرُ لِلْمُشْرِكِينَ، فَقَالَ لَهُمْ : ثَامِنُونِى بهِ ، قَالُوا: لا نَأْخُذُ لَهُ ثَمَنًا أَبَدًا، قَالَ: فَكَانَ النَّبِيُّ ﷺ يَبْنِيهِ وَهُمْ يُنَاوِلُونَهُ، وَالنَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: أَلا إِنَّ الْعَيْشَ عَيْشُ الْآخِرَهُ ، فَاغْفِرْ لِلْأَنْصَارِ وَالْمُهَاجِرَهُ . ))سنن ابن ماجه ، كتاب المساجد ، رقم 772 ، صحيح أبوداؤد، رقم :478،477۔ حضرت ابن بن مالکؓ کہتے ہیں جہاں ( آج) مسجد نبوی ہے وہ جگہ بنو نجار قبیلہ کی تھی اس میں کچھ کھجوروں کے درخت تھے اور مشرکین کی قبریں تھیں۔ نبی اکرمﷺ نے بنو نجار سے کہا: تم لوگ مجھ سے اس زمین کی قیمت لے لو ۔ بنو نجار نے عرض کیا: ہم اس کی قیمت آپ ﷺ سے ہر گز نہیں لیں گے ( بلکہ اللہ تعالیٰ سے اجر و ثواب لیں گے ) ۔ حضرت انسؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ مسجد تعمیر فرماتے جا رہے تھے اور صحابہ کرامؓ آپ ﷺ کو اینٹیں اور گارا دیتے جاتے تھے اور ساتھ ساتھ یہ رجز پڑھتے جاتے تھے: زندگی تو بس آخرت کی زندگی ہے ۔ یا اللہ انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرما دے
مساجد کو گزرگاہ نہ بناؤ
قَالَ اللهُ تَعَالَى: وَّ اَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰهِ فَلَا تَدْعُوْا مَعَ اللّٰهِ اَحَدًا(الجن : 18) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اور یہ کہ مساجد اللہ کے لیے ہیں، پس اللہ کے ساتھ کسی کومت پکارو۔‘‘
حدیث 2:
((وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ : لَا تَتَّخِذُوا الْمَسَاجِدَ طُرُقًا إِلَّا لِذِكْرِ أَوْ صَلَاةٍ .))معجم کبیر طبرانی : 314/12 ، مجمع الزوائد : 24/2، سلسلة الصحيحة، رقم : 1001. حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مساجد کو گزرگاہ نہ بناؤ ان میں صرف اللہ کا ذکر کرنے اور نماز پڑھنے کے لیے آنا چاہیے۔
مسجد صاف ستھری جگہ تعمیر کریں
حدیث 3:
((وَعَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : الْأَرْضُ كُلُّهَا مَسْجِدٌ إِلَّا الْمَقْبَرَةَ وَالْحَمَّامَ .))سنن ترمذی، کتاب الصلاة، رقم : : 317، سنن ابن ماجه ، رقم : 745 - محدث البانی نے اسے ”صحیح“ کہا ہے۔ اور حضرت ابو سعد خدریؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: قبرستان اور حمام کے علاوہ ساری زمین مسجد ہے ۔
گھر میں مسجد کی جگہ رکھنا
حدیث 4:
((وَعَنْ جَابِرٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : إِذَا قَضَى أَحَدُكُمْ الصَّلوةَ فِي مَسْجِدِهِ فَلْيَجْعَلْ لِبَيْتِهِ نَصِيبًا مِنْ صَلوتِهِ فَإِنَّ اللَّهَ جَاعِلٌ فِي بَيْتِهِ مِنْ صَلوتِهِ خَيْرًا . ))صحیح مسلم، کتاب صلوة المسافرين، رقم : 1822. اور حضرت جابرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مسجد میں اپنی ( فرض ) نماز ادا کر چکے تو کچھ حصہ ( یعنی نفل نماز ) اپنے گھر کے لیے بھی رکھے ۔ اللہ تعالیٰ اس نماز کی وجہ سے اس کے گھر میں خیر و برکت عطاء فرمائے گا۔
قبرستان میں مسجد تعمیر کرنا منع ہے
حدیث 5:
((وَعَنْ عَائِشَةَؓ قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : فِي مَرَضِهِ الَّذِي لَمْ يَقُمْ مِنْهُ ، لَعَنَ اللهُ الْيَهُودَ وَالنَّصَارَى اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِيَائِهِمْ مَسَاجِدَ . ))صحیح مسلم، کتاب المساجد، رقم : 1184. اور حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے مرض الموت میں یہ بات ارشاد فرمائی: اللہ کی لعنت ہو یہود و نصاریٰ پر انھوں نے اپنے انبیاءؑ کی قبروں کو مساجد بنالیا ۔
مسجد کی تعمیر میں سادگی کا خیال رکھا جائے
حدیث 6:
((وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ أَخْبَرَهُ: أَنَّ الْمَسْجِدَ كَانَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللهِ صلى الله عليه وسلم مَبْنِيًّا بِاللَّبِنِ وَالْجَرِيدِ . ))سنن ابو داؤد، کتاب الصلاة، رقم : 451۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ ’’اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں مٹی کی اینٹوں اور چھڑیوں سے مسجد تعمیر کی گئی ہے۔‘‘
مساجد میں نقش و نگار قیامت کی نشانی ہے
حدیث 7:
((وَعَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَبَاهَى النَّاسُ فِي الْمَسَاجِدِ . ))سنن ابو داؤد، کتاب الصلاة ، رقم : 449۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ اور حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک لوگ مساجد پر فخر نہ کرنے لگیں ۔
مسجد کی تعمیر کا اجر و ثواب
قَالَ اللهُ تَعَالَى:(اِنَّمَا یَعْمُرُ مَسٰجِدَ اللّٰهِ مَنْ اٰمَنَ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوةَ وَ اٰتَى الزَّكٰوةَ وَ لَمْ یَخْشَ اِلَّا اللّٰهَ فَعَسٰۤى اُولٰٓىٕكَ اَنْ یَّكُوْنُوْا مِنَ الْمُهْتَدِیْنَ)(التوبة : 18) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اللہ کی مسجدیں تو صرف وہ آباد کرتا ہے جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان لایا اور اس نے نماز قائم کی اور زکاۃ دی اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرا، لہٰذا امید ہے کہ یہی لوگ ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوں گے۔‘‘
حدیث 8:
((وَعَنْ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَؓ قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: مَنْ بَنَى مَسْجِدًا يَبْتَغِي بِهِ وَجْهَ اللَّهِ بَنَى اللَّهُ لَهُ مِثْلَهُ فِي الْجَنَّةِ . ))صحیح بخاری ، کتاب الصلاة، رقم : 450. اور حضرت عثمان بن عفان رضی الله کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے: جس نے اللہ کی رضا کے لیے مسجد تعمیر کی اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں ایسا ہی گھر بنائیں گے ۔
حدیث 9:
((وَعَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ يَقُولُ: مَنْ بَنَى مَسْجِدًا يُذْكَرُ فِيهِ اسْمُ اللَّهِ ، بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ .))سنن ابن ماجه ، کتاب المساجد، رقم : 735۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ اور حضرت عمر بن خطابؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے مسجد بنائی کہ اُس میں اللہ تعالیٰ کو یاد کیا جاتا ہے تو اللہ اس کے لیے جنت میں گھر بناتا ہے ۔
حدیث 10:
((وَعَنْ عَائِشَةَؓ عَنِ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: مَنْ بَنَى مَسْجِدًا لا يُرِيدُ بِهِ رِيَاءً وَلَا سُمْعَةً بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْنَا فِي الْجَنَّةِ .))صحيح الترغيب والترهيب للألباني، رقم: 272۔ اور حضرت عائشہؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے دکھاوے اور شہرت کے بغیر مسجد بنائی اس کے لیے اللہ جنت میں ایک گھر تعمیر فرمائے گا۔
چھوٹی مسجد کی تعمیر کا بڑا اجر
حدیث 11:
((وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ قَالَ: مَنْ بَنَى مَسْجِدًا لِلَّهِ كَمَفْحَصِ قَطَاةٍ ، أَوْ أَصْغَرَ ، بَنَى اللَّهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّة .))سنن ابن ماجه ، کتاب المساجد، رقم : 838۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ اور حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے چڑیا کے گھونسلے کے برابر یا اس سے بھی چھوٹی مسجد بنائی اللہ تعالیٰ اس کے لیے جنت میں گھر بناتے ہیں ۔
حدیث 12:
مسجد کی تعمیر صدقہ جاریہ ہے
((وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : إِنَّ مِمَّا يَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِهِ وَحَسَنَاتِهِ بَعْدَ مَوْتِهِ ، عِلْمًا عَلَّمَهُ وَنَشَرَهُ، وَوَلَدًا صَالِحًا تَرَكَهُ ، وَمُصْحَفًا وَرَثَهُ، أَوْ مَسْجِدًا بَنَاهُ أَوْ بَيْتًا لابْنِ السَّبِيلِ بَنَاهُ ، أَوْ نَهْرًا أَجْرَاهُ، أَوْ صَدَقَةً أَخْرَجَهَا مِنْ مَالِهِ فِي صِحَتِهِ وَحَيَاتِهِ ، يَلْحَقُهُ مِنْ بَعْدِ مَوْتِهِ .))سنن ابن ماجه، المقدمة، باب ثواب معلم الناس الخير ، رقم : 243۔ محدث البانی نے اسے ’’حسن‘‘ کہا ہے۔ اور حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مومن کی موت کے بعد اس کے عمل اور نیک کاموں میں سے جس کا ثواب اسے پہنچتا ہے وہ سات ہیں۔ ➊ علم جو اس نے دوسروں کو سکھایا اور پھیلایا ➋ نیک لڑکا جو اپنے پیچھے چھوڑا ➌ قرآن مجید جس کا کسی کو ( علمی ) وارث بنایا ➍ مسجد جو تعمیر کی ➎ گھر جو مسافروں کے لیے بنایا ➏ نہر جو اس نے جاری کی ➐ وہ صدقہ جو اپنی زندگی میں صحت کی حالت میں دیا۔ ان (سات) چیزوں کا ثواب انسان کو اس کی موت کے بعد بھی ملتا رہتا ہے ۔
تقویٰ کی بنیاد پر تعمیر کی گئی مسجد کی اہمیت حال
حدیث 13:
((وَعَنْ عَائِشَةَؓ لَبِثَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فِي بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ بِضْعَ عَشْرَةَ لَيْلَةً، وَأُسِّسَ الْمَسْجِدُ الَّذِي أُسِّسَ عَلَى التَّقْوَى، وَصَلَّى فِيهِ رَسُولُ اللهِ ثُمَّ رَكِبَ رَاحِلَتَهُ ))صحیح بخاری، کتاب المناقب، رقم : 3906 . ’’اور حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے کہ (ہجرت کے دوران) رسول الله ﷺ بنی عمرو بن عوف کے محلہ (قبا) میں چند راتیں تشریف فرما رہے اور اس مسجد کی تعمیر فرمائی جس کی بنیاد تقویٰ پر ہے (پھر آپ ﷺ جتنے دن وہاں تشریف فرما رہے) نماز اسی مسجد میں ادا فرماتے رہے ۔‘‘
تعمیر مسجد میں رسول اللہ ﷺ کی شرکت
حدیث 14:
((وعنهاؓ ثُمَّ رَكِبَ رَاحِلَتَهُ فَسَارَ يَمْشِي مَعَهُ النَّاسُ حَتَّى بَرَكَتْ عِنْدَ مَسْجِدِ الرَّسُولِ ﷺ بِالْمَدِينَةِ وَهُوَ يُصَلِّي فِيهِ يَوْمَئِذٍ رِجَالٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَكَانَ مِرْبَدًا لِلتَّمْرِ لِسُهَيْلِ وَسَهْلٍ غُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي حَجْرٍ أَسْعَدَ بْنِ زُرَارَةَ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ حِينَ بَرَكَتْ بِهِ رَاحِلَتُهُ: هَذَا إِنْ شَاءَ اللَّهُ الْمَنْزِلُ ثُمَّ دَعَا رَسُولُ اللهِ ﷺ الْغُلَامَيْنِ فَسَاوَمَهُمَا بِالْمِرْبَدِ لِيَتَّخِذَهُ مَسْجِدًا ، فَقَالَا وَلا بَلْ نَهَبُهُ لَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأَبَى رَسُولُ اللَّهِ أَنْ يَقْبَلَهُ مِنْهُمَا هِبَةً حَتَّى ابْتَاعَهُ مِنْهُمَا ، ثُمَّ بَنَاهُ مَسْجِدًا وَطَفِقَ رَسُولُ اللهِ ﷺ يَنْقُلُ مَعَهُمُ اللَّبِنَ فِي بُنْيَانِهِ وَيَقُولُ، وَهُوَ يَنْقُلُ اللَّبِنَ:هَذَا الْحِمَالُ لَا حِمَالَ خَيْبَرْهَذَا أَبَرُّ رَبَّنَا وَأَطهَرْوَيَقُولُ:اَللَّهُمَّ إِنَّ الْأَجْرَ أَجْرُ الآخِرَةِفَارْحَمِ الْأَنْصَارَ وَالْمُهَاجِرَهُصحیح بخاری، کتاب المناقب، رقم : 3906 . اور حضرت عائشہؓ سے ہی روایت ہے (قبا سے رخصت ہوتے وقت) آپ ﷺ اپنی اونٹنی پر بیٹھ گئے اور دوسرے لوگ آپ ﷺ کے ساتھ چل رہے تھے ۔ اونٹنی مدینہ میں مسجد الرسول ﷺ کے پاس جا کر بیٹھ گئی۔ اس وقت کچھ مسلمان وہاں نماز پڑھتے تھے ۔ یہ زمین دو یتیم لڑکوں سہل اور سہیل کی تھی جو وہاں کھجور میں خشک کرتے تھے ۔ یہ دونوں بچے اسعد بن زرارہؓ کے زیر تربیت تھے ۔ رسول اللہ ﷺ نے ، جہاں اونٹنی بیٹھ گئی ، اس جگہ کے متعلق فرمایا: ان شاء اللہ ! ہمارا یہی مقام ہوگا ۔ پھر رسول اللہ ﷺ نے ان دونوں بچوں کو بلوایا اور کھجور میں خشک کرنے کی جگہ کا ان سے بھاؤ کیا تا کہ اسے مسجد بنا سکیں ۔ ان دونوں نے کہا یا رسول اللہ ﷺ ! ہم اس کی قیمت نہیں لیں گے ، ہم یہ زمین آپ ﷺ کو ہبہ کر دیتے ہیں ۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے ہبہ لینا قبول نہ فرمایا بلکہ قیمت دے کر ان سے خرید لی اور وہاں مسجد کی بنیاد رکھی اور اس مسجد کی تعمیر میں رسول اللہ ﷺ ہم سب لوگوں کے ساتھ اینٹیں اُٹھاتے اور ساتھ ساتھ یہ فرماتے: یہ بوجھ اُٹھانا کوئی خیبر کا بوجھ اُٹھانا نہیں ہے بلکہ یہ تو باعث ثواب اور پاکیزہ کام ہے ۔ (اے رب ہمارے قبول فرما ) اور یہ بھی فرماتے تھے: اے اللہ ! اجر تو آخرت ہی کا اجر ہے تو انصار اور مہاجرین پر رحم فرما۔
سفر سے واپسی پر پہلے مسجد جانا
حدیث 15:
((وَعَنْ كَعْبَ بْنِ مَالِكِؓ : كَانَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم إِذَا قَدِمَ مِنْ سَفَرٍ بدَءَ بِالْمَسْجِدِ فَصَلَّى فِيْهِ .))صحیح بخاری ، كتاب الصلاة، باب الصلاة إذا قدم من سفر، معلقاً. ’’اور حضرت کعب بن مالکؓ سے روایت ہے کہ جب نبی اکرم ﷺ سے سفر سے واپس تشریف لائے تو پہلے مسجد میں آکر نماز ادا فرماتے (پھر گھر تشریف لے جاتے)۔‘‘
حالت پریشانی میں مسجد جانا
حدیث 16:
((وَعَنْ أَبِي مُوسىٰ ﷺ قَالَ: خَسَفَتِ الشَّمْسُ فِي زَمَنِ النَّبِيِّ ، فَقَامَ فَزِعَا يَخْشَى أَنْ تَكُونَ السَّاعَةُ، حَتَّى أَتَى الْمَسْجِدَ ، فَقَامَ يُصَلِّي بِأَطْوَلِ قِيَامٍ وَرُكُوعِ وَسُجُودٍ ، مَا رَأَيْتُهُ يَفْعَلُهُ فِي صَلوةِ قَطُّ ))صحیح مسلم ، کتاب الكسوف، رقم : 2117 . ’’اور حضرت ابو موسیٰؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد میں سورج گرہن ہوا تو آپ ﷺ گھبرا کر اٹھے کہ شاید قیامت آئی اور مسجد تشریف لے آئے ۔ اللہ کے حضور ﷺ نماز کے لیے کھڑے ہو گئے اور اتنا طویل قیام اور رکوع وسجود کیا کہ میں نے آپ ﷺ کو کسی نماز میں کبھی اتنا طویل قیام اور رکوع و سجود کرتے نہیں دیکھا۔‘‘
اذان سن کر مسجد جانا
حدیث 17:
((وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَؓ قَالَ: أَتَى النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رَجُلٌ أَعْمَى فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ! إِنَّهُ لَيْسَ لِى قَائِدٌ يَقُودُنِي إِلَى الْمَسْجِدِ، فَسَأَلَ رَسُولَ اللهِ ﷺ أَنْ يُرَخِصَ لَهُ فَيُصَلِّي فِي بَيْتِهِ ، فَرَخَّصَ لَهُ فَلَمَّا وَلَّى دَعَاهُ، فَقَالَ هَلْ تَسْمَعُ النِّدَاءَ بِالصَّلوةِ؟ فَقَالَ: نَعَمْ قَالَ فَأَجِبْ .))صحیح مسلم، کتاب المساجد، رقم : 1486. اور حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں ایک نابینا صحابی (حضرت عبدالله بن أم مكتومؓ) حاضر ہوئے اور عرض کی یا رسول اللہ ! میرے پاس کوئی ایسا آدمی نہیں جو مجھے مسجد میں لے کر آئے ۔ اور آپ ﷺ سے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت طلب کی ۔ آپ ﷺ نے اسے رخصت دے دی لیکن جب وہ نابینا صحابی واپس پلٹے تو آپ ﷺ نے انھیں بلایا اور پوچھا کیا تم اذان کی آواز سنتے ہو؟ اُنھوں نے عرض کیا ہاں یا رسول اللہ ! آواز تو سنتا ہوں ۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تو پھر مسجد میں آکر نماز پڑھو۔‘‘
فرض نماز گھر میں ادا کرنے پر وعید
حدیث 18:
((وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِؓ قَالَ: إِنَّ اللَّهَ شَرَعَ لِنَبِيِّكُمْ سُنَنَ الْهُدَى ، وَإِنَّهُنَّ مِنْ سُنَنِ الْهُدَى، وَلَوْ أَنَّكُمْ صَلَّيْتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ كَمَا يُصَلَّى هَذَا الْمُتَخَلِفُ فِي بَيْتِهِ لَتَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ، وَلَوْ تَرَكْتُمْ سُنَّةَ نَبِيِّكُمْ لَضَلَلْتُمْ .))صحیح مسلم، کتاب المساجد، رقم : 1488 . اور حضرت عبداللہؓ کہتے ہیں: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی ﷺ کے لیے عبادت کے طریقے مقرر فرما دیے ہیں ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ جس مسجد میں اذان دی جائے اس میں حاضر ہو کر نماز ادا کرو پس اگر تم اپنے گھروں میں (فرض) نماز پڑھو گے جس طرح فلاں شخص جماعت چھوڑنے والا گھر میں نماز ادا کرتا ہے گویا تم نے اپنے نبی ﷺ کا طریقہ چھوڑ دیا اور اگر تم لوگ اپنے نبی ﷺ کا طریقہ چھوڑ دو گے تو گمراہ ہو جاؤ گے۔‘‘
مسجد میں نہ آنے والے منافق ہیں
قَالَ اللهُ تَعَالَى: (اِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ یُخٰدِعُوْنَ اللّٰهَ وَ هُوَ خَادِعُهُمْۚ-وَ اِذَا قَامُوْۤا اِلَى الصَّلٰوةِ قَامُوْا كُسَالٰىۙ-یُرَآءُوْنَ النَّاسَ وَ لَا یَذْكُرُوْنَ اللّٰهَ اِلَّا قَلِیْلًا)(النساء : 142) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک منافقین اللہ کو دھوکا دیتے ہیں، مگر حقیقت یہ ہے کہ اللہ نے انھیں دھوکے میں ڈال رکھا ہے، اور جب وہ نماز کے لیے کھڑے ہوتے ہیں تو دل سے نہ چاہتے ہوئے ، لوگوں کو دکھانے کے لیے کھڑے ہوتے ہیں، اور وہ اللہ کو بس تھوڑا ہی یاد کرتے ہیں ۔‘‘
حدیث 19:
((وَعَنْهُ وَ قَالَ: لَقَدْ رَأَيْتُنَا وَمَا يَتَخَلَّفُ عَنِ الصَّلوةِ إِلَّا مُنَافِقٌ قَدْ عُلِمَ نِفَاقُهُ ، أَوْ مَرِيضٌ ، إِنْ كَانَ الْمَرِيضُ لَيَمْشِي بَيْنَ رَجُلَيْنِ حَتَّى يَأْتِيَ الصَّلوةَ . ))صحیح مسلم، کتاب المساجد، رقم : 1487. ’’اور حضرت عبداللہؓ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ ( یعنی صحابہ کرامؓ) یہ سمجھتے تھے کہ مسجد میں آکر نماز نہ ادا کرنے والا ایسا منافق ہے جس کا نفاق بالکل واضح ہے یا پھر وہ بیمار ہے حالانکہ ( ہم میں سے جو شخص بیمار ہوتا ) وہ بھی دو آدمیوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھ کر مسجد میں آتا اور نماز ادا کرتا۔‘‘
عشاء اور فجر کی نماز مسجد میں ادا کرنا
حدیث 20:
((وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَؓ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : إِنَّ أَثْقَلَ صَلوةِ عَلَى الْمُنَافِقِينَ صَلوةُ الْعِشَاءِ وَصَلوةُ الْفَجْرِ وَلَوْ يَعْلَمُونَ مَا فِيهِمَا لَأَتَوْهُمَا وَلَوْ حَبْوا .))صحیح مسلم، کتاب المساجد، رقم : 1482. ’’اور حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’نماز عشاء اور نماز فجر مسجد میں آکر ادا کرنا منافقوں پر بہت بھاری ہے اگر انھیں علم ہو جائے کہ ان دونوں نمازوں کا مسجد میں آکر ادا کرنا کتنا زیادہ اجر وثواب کا باعث ہے تو وہ مسجد میں گھٹنوں کے بل چل کر آئیں ۔‘‘
اذان سن کر مسجد میں نہ جانے پر وعید
حدیث 21:
((وَعَنْهُ وَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ : لَقَدْ هَمَمْتُ أَنْ آمُرَ بِالصَّلوةِ فَتُقَامَ ثُمَّ أَمُرَ رَجُلًا فَيُصَلِّي بِالنَّاسِ ، ثُمَّ أَنْطَلِقَ مَعِي برِجَالِ مَعَهُمْ حُزَمٌ مِنْ حَطَبٍ إِلَى قَوْمِ لَا يَشْهَدُونَ الصَّلوةَ فاحرق عليهم بيوتهم بالنّارِ .))صحیح مسلم ، کتاب الذكر والدعاء ، رقم : 6853. اور حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب کچھ لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی ایک گھر ( یعنی مسجد ) میں جمع ہو کر قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے قرآن پڑھتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اللہ کی رحمت انھیں ڈھانپ لیتی ہے فرشتے انھیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر ان کے پاس کرتے ہیں جو اس کے پاس ہیں ( یعنی فرشتے ) اور (یاد رکھو ! ) جس شخص کو اس کے عمل نے پیچھے رکھا اس کا نسب اس کو آگے نہیں کر سکے گا۔‘‘
مساجد اللہ تعالیٰ کے گھر ہیں
حدیث 22:
(( وَعَنْهُ وَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ : مَا اجْتَمَعَ قَوْمٌ فِي بَيْتِ مِنْ بُيُوتِ اللهِ يَتْلُونَ كِتَابَ اللَّهِ وَيَتَدَارَسُونَهُ بَيْنَهُمْ إِلَّا نَزَلَتْ عَلَيْهِمُ السَّكِينَةُ، وَغَشِيَتْهُمُ الرَّحْمَةُ، وَحَفَّتْهُمُ الْمَلَائِكَةُ ، وَذَكَرَهُمُ اللَّهُ فِيمَنْ عِنْدَهُ، وَمَنْ بَطَّا بِهِ عَمَلُهُ لَمْ يُسْرِعْ بِهِ نسبہ۔))صحيح مسلم، کتاب الذكر والدعاء، رقم :6853. اور حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’جب کچھ لوگ اللہ کے گھروں میں سے کسی ایک گھر ( یعنی مسجد ) میں جمع ہو کر قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہیں اور آپس میں ایک دوسرے سے قرآن پڑھتے پڑھاتے ہیں تو ان پر سکینت نازل ہوتی ہے اللہ کی رحمت انہیں ڈھانپ لیتی ہے فرشتے انہیں گھیر لیتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کا ذکر ان کے پاس کرتے ہیں جو اس کے پاس ہیں (یعنی فرشتے) اور (یاد رکھو!) جس شخص کو اس کے عمل نے پیچھے رکھا اس کا نسب اس کو آگے نہیں کر سکے گا۔‘‘
مساجد جنت کے باغ ہیں
حدیث 23:
((وَعَنْهُ وَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : إِذَا مَرَرْتُمْ بِرِيَاضِ الْجَنَّةِ فَارْتَعُوا قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ وَمَا رِيَاضُ الْجَنَّةِ؟ قَالَ: الْمَسَاجِدُ قُلْتُ: وَمَا الرَّتْعُ ؟ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ .)) اور حضرت ابو ہریرہؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تمھارا گزر جنت کے باغوں میں سے ہو تو اس کے میوے کھایا کرو ۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے عرض کی: یا رسول اللہ ! جنت کے باغ کون سے ہیں؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مساجد ۔ حضرت ابو ہریرہؓ نے عرض کی میوے کون سے ہیں ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا الله، والله اكبرسنن ترمذی، ابواب الدعوات، رقم : 3510 - امام ترمذی نے اسے ’’حسن‘‘ قرار دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ پسندیدہ جگہیں مساجد ہیں
حدیث 24:
((وَعَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: أَحَبُّ الْبَلَادِ إِلَى اللَّهِ مَسَاجِدُهَا ، وَأَبْغَضُ الْبَلَادِ إِلَى اللهِ أَسْوَاقُهَا .))صحیح مسلم، کتاب المساجد ، رقم : 1528 . اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کو شہروں میں سے سب سے زیادہ محبوب جگہیں مساجد ہیں اور شہروں میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ جگہیں بازار ہیں ۔
مساجد امن و امان اور سلامتی کی جگہیں ہیں
حدیث 25:
((وَعَنْ جَابر بْنَ عَبْدِ اللَّهِؓ قَالَ: مَرَّ رَجُلٌ فِي الْمَسْجِدِ وَمَعَهُ سِهَامٌ ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ أَمْسِكْ بِنصَالِهَا . ))صحیح بخاری، کتاب الصلاة، رقم : 451 . ’’اور حضرت عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ مساجد روئے زمین پر اللہ کے گھر ہیں جو آسمان والوں (یعنی فرشتوں) کو اس طرح چمکتی نظر آتی ہیں جس طرح زمین والوں کو آسمان کے ستارے چمکتے نظر آتے ہیں ۔‘‘
مساجد فرشتوں کے لیے آسمان کے ستارے
حدیث 26:
((وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ: الْمَسَاجِدُ بُيُوتُ اللَّهِ فِي الْأَرْضِ تُضِيءُ لِأَهْلِ السَّمَاءِ كَمَا تُضِيءُ نَجُوْمُ السَّمَاءِ لَاهْلِ الأَرْضِ .))مجمع الزوائد : 110/2 ، رقم : 1934 . ’’اور حضرت عبد اللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں مساجد روئے زمین پر اللہ کے گھر ہیں جو آسمان والوں (یعنی فرشتوں) کو اس طرح چمکتی نظر آتی ہیں جس طرح زمین والوں کو آسمان کے ستارے چمکتے نظر آتے ہیں۔‘‘
مسجد ہر مومن آدمی کا گھر ہے
حدیث 27:
((وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِؓ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صلى الله عليه وسلم يَقُولُ: الْمَسْجِدُ بَيْتُ كُلّ تَقِي . ))سلسلة الاحاديث الصحيحة ، رقم: 716. ’’حضرت ابو درداءؓ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ مسجد ہر متقی شخص کا گھر ہے ۔‘‘
مساجد خیر و برکت کا منبع اور ہدایت کا سرچشمہ ہیں
قَالَ اللهُ تَعَالَى:(اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَ(96) فِیْهِ اٰیٰتٌۢ بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰهِیْمَ ﳛ وَ مَنْ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًاؕ-وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًاؕ-وَ مَنْ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ(97))(آل عمران : 96، 97) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’بے شک (اللہ کا) پہلا گھر جو لوگوں کے لیے مقرر کیا گیا وہی ہے جو مکہ میں ہے۔ وہ تمام دنیا کے لیے بڑی برکت اور ہدایت والا ہے۔ اس میں واضح نشانیاں ہیں (اور) مقام ابراہیم ہے، اور جو اس میں داخل ہو جائے ، وہ امن والا ہو جاتا ہے، اللہ نے ان لوگوں پر بیت اللہ کا حج فرض کیا ہے جو اس کی طرف سفر کرنے کی طاقت رکھتے ہوں اور جس نے کفر کیا تو بے شک اللہ ساری دنیا سے بے پروا ہے۔‘‘
حدیث 28:
((وَعَنْ أَبِي ذَرٍ قَالَ: قُلْتُ يَا رَسُولَ اللهِ! أَيُّ مَسْجِدٍ وُضِعَ فِي الْأَرْضِ أَوَّلُ؟ قَالَ: الْمَسْجِدُ الْحَرَامُ قُلْتُ: ثُمَّ أَيُّ؟ قَالَ الْمَسْجِدُ الْأَقْصَى قُلْتُ: كَمْ بَيْنَهُمَا؟ قَالَ: أَرْبَعُونَ سَنَةٌ وَأَيْنَمَا أَدْرَكَتْكَ الصَّلوةُ فَصَلَّ فَهُوَ مَسْجِدٌ))صحیح مسلم، کتاب المساجد، رقم :1161. ’’اور حضرت ابوذرؓ کہتے ہیں میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ ! زمین پر سب سے پہلے کون سی مسجد تعمیر کی گئی ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسجد حرام ۔ میں نے عرض کیا: اس کے بعد کون سی؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: مسجد اقصیٰ ۔ میں نے عرض کیا: ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: چالیس سال ! اور تجھے جہاں بھی نماز کا وقت آجائے وہیں نماز پڑھ لے۔ وہ جگہ مسجد (ہی) ہے ۔
حدیث 29:
مسجد حرام میں نماز کا ثواب
((وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللَّهِ : صَلَاةٌ فِي مَسْجِدِى أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيمَا سِوَاهُ إِلَّا الْمَسْجِدَ الْحَرَامَ، وَصَلَاةٌ فِي الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ أَفْضَلُ مِنْ مِائَةِ أَلْفِ صَلَاةٍ فِيْهِ سِوَاهُ))صحيح الجامع الصغير رقم:3732. اور حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: میری مسجد میں نماز ادا کرنے کا اجر ( دوسری مساجد کے مقابلے میں ) ہزار گنا زیادہ ہے سوائے مسجد حرام کے اور مسجد حرام میں ایک نماز کا ثواب ( دوسری مساجد کے مقابلے میں ) ایک لاکھ گنا زیادہ ہے ۔
مسجد اقصیٰ کی فضیلت
قَالَ اللهُ تَعَالَى:(سُبْحٰنَ الَّذِیْۤ اَسْرٰى بِعَبْدِهٖ لَیْلًا مِّنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اِلَى الْمَسْجِدِ الْاَقْصَا الَّذِیْ بٰرَكْنَا حَوْلَهٗ لِنُرِیَهٗ مِنْ اٰیٰتِنَاؕ-اِنَّهٗ هُوَ السَّمِیْعُ الْبَصِیْرُ)(بنی اسرائیل : 1) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’پاک ہے وہ ( اللہ ) جو اپنے بندے کو رات کے ایک حصے میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک لے گیا جس کے ماحول کو ہم نے برکت دی ہے، تا کہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھا ئیں ۔ بے شک وہی خوب سننے والا ، خوب دیکھنے والا ہے۔
حدیث 30:
((وَعَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو عَنْ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: لَمَّا فَرَغَ سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ - عَلَيْهِمَا السَّلَامُ - مِنْ بِنَاءِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ سَأَلَ الله ثَلاثًا: حُكْمًا يُصَادِفُ حُكْمَهُ، وَمُلْكًا لَا يَنْبَغِي لَأَحَدٍ مِنْ بَعْدِهِ، وَأَلَّا يَأْتِيَ هَذَا الْمَسْجِدَ أَحَدٌ - لَا يُرِيدُ إِلَّا الصَّلَاةَ فِيهِ إِلَّا خَرَجَ مِنْ ذُنُوبِهِ كَيَوْمٍ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ ، فَقَالَ النَّبِيُّ صلى الله عليه وسلم أَمَّا اثْنَتَانِ فَقَدْ أُعْطِيَهُمَا ، وَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ قَدْ أُعْطِيَ الثَّالِثَةَ .))سنن ابن ماجه ، كتاب الصلاة، رقم : 1408۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن عمروؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: حضرت سلیمانؑ بن داودؑ جب بیت المقدس کی تعمیر سے فارغ ہوئے تو اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں مانگیں ۔ ➊ اللہ تعالیٰ انھیں ایسی حکومت دے جس میں وہ اللہ کے حکم کے مطابق فیصلے کریں ۔ ➋ اللہ انھیں ایسی حکومت دے کہ ان کے بعد ایسی حکومت کسی دوسرے کو نہ ملے ۔ ➌ جو شخص اس مسجد میں نماز کے ارادے سے آئے وہ گناہوں سے اس طرح پاک صاف ہو جائے جیسے آج ہی ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہے ۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ نے ان کی دو دعا ئیں تو قبول فرما لیں مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ تیسری دعا بھی قبول فرمالیں گے ۔
مسجد نبوی کی طرف سفر کی فضیلت
قَالَ اللهُ تَعَالَى:(لَا تَقُمْ فِیْهِ اَبَدًاؕ-لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِؕ-فِیْهِ رِجَالٌ یُّحِبُّوْنَ اَنْ یَّتَطَهَّرُوْاؕ-وَ اللّٰهُ یُحِبُّ الْمُطَّهِّرِیْنَ)(التوبة : 108) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’(اے نبی!) آپ اس مسجد (ضرار) میں کبھی بھی کھڑے نہ ہوں، البتہ وہ مسجد جس کی بنیاد اول روز ہی سے تقوے پر رکھی گئی ہے اس کی زیادہ حق دار ہے کہ آپ اس میں کھڑے ہوں۔ اس میں ایسے لوگ ہیں جو ( اس بات کو ) پسند کرتے ہیں کہ وہ پاک صاف ہوں اور اللہ پاک صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘
حدیث 31:
((وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَؓ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيِّ : لَا تُشَدُّ الرِّحَالُ إِلَّا إلى ثَلاثَةِ مَسَاجِدَ: مَسْجِدِى هَذَا، وَمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَمَسْجِدِ الاقصى . ))صحیح مسلم، کتاب الحج ، رقم : 3384. اور حضرت ابو ہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: تین مساجد کے علاوہ کسی دوسری مسجد کا ( زیادہ ثواب حاصل کرنے کی نیت سے ) سفر اختیار نہ کیا جائے ۔ ➊ مسجد نبوی ➋ مسجد حرام اور ➌ مسجد اقصیٰ ۔
مسجد قباء میں دو رکعت نماز ادا کرنے کا ثواب
حدیث 32:
((وَعَنْ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍؓ قَالَ: قَالَ أَبِي: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ مَنْ خَرَجَ حَتَّى يَأْتِيَ هَذَا الْمَسْجِدَ مَسْجِدَ قُبَاءَ فَصَلَّى فِيهِ كَانَ لَهُ عَدْلُ عُمْرَةٍ .))سنن نسائی، کتاب المساجد، رقم : 699۔ محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ اور حضرت سہل بن حنیفؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص (اپنے گھر سے) نکلے اور اس مسجد یعنی مسجد قباء میں آکر ( دو رکعت ) نماز ادا کرے، تو اسے عمرہ کے برابر ثواب ملے گا۔
اللہ تعالیٰ کی مسجدوں سے محبت
حدیث 33:
((وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: أَحَبُّ الْبِلَادِ إِلَى اللهِ مَسَاجِدُهَا وَأَبْغَضُ الْبَلَادِ إِلَى اللَّهِ أَسْوَاقُهَا . ))صحیح مسلم ، ، كتاب المساجد، رقم : 1528. اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: شہروں میں سے اللہ تعالیٰ کی سب سے زیادہ محبوب جگہیں مساجد ہیں اور شہروں میں سے سب سے زیادہ ناپسندیدہ جگہیں بازار ہیں ۔
مسجد سے گہراتعلق رکھنے کا ثواب
حدیث 34:
((وَعَنْهُ وَ عَنِ النَّبِيِّ ﷺ قَالَ: سَبْعَةٌ يُظِلُّهُمُ اللَّهُ فِي ظِلِّهِ يَوْمَ ﷺ لا ظِلَّ إِلَّا ظِلُّهُ: الْإِمَامُ الْعَادِلُ، وَشَابٌ نَشَأَ فِي عِبَادَةِ رَبِّهِ، وَرَجُلٌ قَلْبُهُ مُعَلَّقٌ فِى الْمَسَاجِدِ، وَرَجُلَان تَحَابَّا فِي اللَّهِ اجْتَمَعَا عَلَيْهِ وَتَفَرَّقَا عَلَيْهِ، وَرَجُلٌ طَلَبَتْهُ امْرَأَةٌ ذَاتُ مَنْصِبٍ وَجَمَالِ فَقَالَ: إِنِّي أَخَافُ اللَّهَ ، وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ أَخْفَى حَتَّى لَا تَعْلَمَ شِمَالُهُ مَا تُنْفِقُ يَمِينُهُ ، وَرَجُلٌ ذَكَرَ اللَّهَ خَالِيًا فَفَاضَتْ عيناه .))صحیح بخاری، کتاب الاذان ، رقم : 660. اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: سات آدمیوں کو اللہ تعالیٰ (اپنے عرش کا) سایہ مہیا کرے گا جب اس کے (عرش کے) سائے کے علاوہ کہیں سایہ نہ ہوگا ➊ انصاف کرنے والا حکمران ➋ وہ نوجوان جس نے اپنی نوجوانی اللہ کی عبادت میں گزار دی ➌ وہ شخص جس کا دل ہر وقت مسجد میں اٹکا رہتا ہے۔ ➍ وہ دو آدمی جنھوں نے خالص اللہ کی رضا کے لیے ایک دوسرے سے محبت کی اس محبت پر اکٹھے ہوئے اور اس محبت پر الگ ہوئے۔ ➎ وہ مرد جسے اونچے خاندان اور حسین و جمیل عورت نے دعوت گناہ دی لیکن اس نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ میں اللہ سے ڈرتا ہوں۔ ➏ وہ مرد جس نے اس طرح صدقہ کیا کہ بائیں ہاتھ کو بھی علم تک نہ ہو کہ دائیں ہاتھ نے کیا صدقہ کیا ہے ➐ وہ مرد جس نے تنہائی میں اللہ کو یاد کیا اور اس کی آنکھوں سے (اللہ کے ڈر سے ) آنسو بہہ نکلے۔
مساجد کو صاف ستھرا اور خوشبو دار رکھنے کا حکم
حدیث 35:
((وَعَنْ عَائِشَةَؓ قَالَتْ : أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم بِبِنَاءِ الْمَسَاجِدِ في الدور، وَأَنْ تُنفَّفَ وَتُطَيَّب .))صحیح سنن ابی داؤد، رقم : 436. ’’اور حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے محلوں میں مساجد بنانے ، انھیں پاک صاف اور خوشبو دار رکھنے کا حکم دیا ہے۔‘‘
مسجد کی صفائی کی اہمیت
حدیث 36:
((وَعَنْ أَنَسِؓ أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم رَأَى نُخَامَةٌ فِي الْقِبْلَةِ فَشَقَّ ذَلِكَ عَلَيْهِ حَتَّى رَبِّيَ فِي وَجْهِهِ ، فَقَامَ فَحَكَهُ بِيَدِهِ .))صحیح بخاری، کتاب الصلاة، رقم : 405. ’’اور حضرت انسؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے قبلہ کی دیوار پر بلغم لگا ہوا دیکھا تو آپ ﷺ کو سخت ناگوار محسوس ہوا حتیٰ کہ آپ ﷺ کے چہرہ مبارک پر بھی ناگواری کے آثار دکھائی دیئے ، آپ ﷺ اٹھے اور اپنے دست مبارک سے اسے صاف کر دیا ۔‘‘
خادم مسجد کی فضیلت
حدیث 37:
((وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ وَ أَنَّ امْرَأَةَ سَوْدَاءَ كَانَتْ تَقُمُ الْمَسْجِدَ أَوْ شَابًا فَفَقَدَهَا رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم فَسَأَلَ عَنْهَا أَوْ عَنْهُ؟ فَقَالُوا: مَاتَ؛ قَالَ: أَفَلَا كُنتُمْ آذَنْتُمُونِي؟ قَالَ: فَكَأَنَّهُمْ صَغَرُوا أَمْرَهَا أَوْ أَمْرَهُ فَقَالَ: دُلُّونِي عَلى قَبْرِهِ، فَدَلُّوهُ، فَصَلَّى عَلَيْهَا، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ هذِهِ الْقُبُورَ مَمْلُونَةٌ ظُلْمَةً عَلَى أَهْلِهَا ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُنَوِّرُهَا لَهُمْ بِصَلُوتِي عَلَيْهِمْ .))صحیح مسلم، کتاب الجنائز، رقم : 2215. ’’اور حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک کالے رنگ کی عورت (یا مرد) مسجد کی خدمت کرتی تھی رسول اللہ ﷺ کو (چند دن) نظر نہ آئی تو آپ ﷺ نے لوگوں سے اس کے بارے میں سوال کیا تو لوگوں نے بتایا وہ تو فوت ہو چکی ہے آپ ﷺ نے فرمایا تم لوگوں نے مجھے کیوں نہیں بتایا ؟ ابو ہریرہؓ کہتے ہیں لوگوں نے اسے معمولی بات سمجھ کر آپ ﷺ کو اطلاع نہ دی ۔ آپ ﷺ نے فرمایا مجھے اس کی قبر بتاؤ لوگوں نے رسول اللہ ﷺ کو اس کی قبر بتائی تو آپ ﷺ نے اس پر نماز جنازہ پڑھی ۔ پھر فرمایا یہ قبریں تاریکی سے بھری ہوئی ہیں میری نماز (یا دعاء) کی وجہ سے اللہ انھیں روشن فرما دیتا ہے ۔‘‘
مسجد میں نماز کے لیے آنے کا ثواب
حدیث 38:
((وَعَنْ سَلْمَانَ وَ أَنَّ النَّبِيِّ صلى الله عليه وسلم قَالَ: مَنْ تَوَضَّأَ فِي بَيْتِهِ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ ثُمَّ أَتَى الْمَسْجِدَ فَهُوَ زَائِرُ اللَّهِ؛ وَحَقٌّ عَلَى الْمَزُورِ أَنْ يُكْرِمَ الزَّائِرَ .))صحيح الترغيب والترهيب ، رقم : 320 - محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ اور حضرت سلمانؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے گھر میں وضو کیا اور بہت اچھا وضو کیا پھر مسجد میں حاضر ہوا وہ اللہ کا مہمان ہے اور میزبان پر یہ حق ہے کہ وہ اپنے مہمان کی عزت کرے ۔
حدیث 39:
((وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرِوؓ قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ : مَنْ رَاحَ إِلَى الْمَسْجِدِ جَمَاعَةٌ فَخُطْوَتَاهُ ،خُطْوَةٌ تَمْحُوا سَيِّئَةً وَخُطْوَةٌ تَكْتُبُ حَسَنَةً ذَاهِبًا وَارَاجعًا .))صحیح ابن حبان ، كتاب الصلاة، رقم :2039/5۔ ابن حبان نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ اور حضرت عبداللہ بن عمروؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص جماعت میں شرکت کے لیے مسجد میں گیا اس کے ہر قدم پر ایک گناہ معاف ہوتا ہے اور ایک نیکی نامہ اعمال میں لکھی جاتی ہے مسجد جاتے ہوئے بھی اور گھر واپس آتے ہوئے بھی۔
خواتین کا مسجد میں جا کر نماز ادا کرنا بشرطیکہ فتنہ کا ڈر نہ ہو
حدیث 40:
((وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ : لَا تَمْنَعُوا نِسَائِكُمْ الْمَسَاجِدَ وَبُيُوتُهُنَّ خَيْرٌ لَهُنَّ .))سنن ابو داؤد، کتاب الصلاة، رقم : 567 ، سلسلة الصحيحة، رقم : 1396. اور حضرت عبداللہ بن عمرؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: عورتوں کو مسجد میں جانے سے منع نہ کرو (لیکن جب فتنہ کا ڈر ہوتو پھر) ان کے گھر ان کے لیے بہتر ہیں ۔ مسجد میں داخل ہونے اور نکلنے کی دعائیں قَالَ اللهُ تَعَالَى: ﴿ یٰبَنِیْۤ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَكُمْ عِنْدَ كُلِّ مَسْجِدٍ وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ-اِنَّهٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ ﴾(الاعراف : 31) اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’اے بنی آدم ! تم ہر نماز کے وقت اپنی زینت اختیار کرو، اور کھاؤ اور پیو، اور فضول خرچی نہ کرو، بے شک وہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
حدیث 41:
((وَعَنْ فَاطِمَةَ بِنْتِ رَسُولِ اللهِ ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صلى الله عليه وسلم إِذَا دَخَلَ الْمَسْجِدَ يَقُولُ: بِسْمِ اللَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُوْلِ اللهِ ، اللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ وَإِذَا خَرَجَ قَالَ: بِسْمِ اللَّهِ وَالسَّلَامُ عَلَى رَسُولِ اللهِ ، اللهُمَّ اغْفِرْ لِي ذُنُوبِي وَافْتَحْ لِي أَبْوَابَ فَضْلِكَ .))سنن ابن ماجه ، کتاب الصلاة، رقم : 771 - محدث البانی نے اسے ’’صحیح‘‘ کہا ہے۔ اور حضرت فاطمہؓ بنت رسول اللہ ﷺ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مسجد میں داخل ہوتے تو فرماتے : اللہ کے نام سے مسجد میں داخل ہوتا ہوں ، سلامتی ہو اللہ کے رسول ﷺ پر یا اللہ میرے گناہ معاف فرما اور میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔ اور جب مسجد سے نکلتے تو فرماتے : اللہ کے نام سے مسجد سے نکلتا ہوں ، سلامتی ہو اللہ کے رسول ﷺ تم پر ، یا اللہ میرے گناہ معاف فرما اور میرے لیے اپنے فضل کے دروازے کھول دے۔ وَصَلَّى اللهُ تَعَالَى عَلَى خَيْرٍ خَلْقِهِ مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَصَحْبِهِ أَجْمَعِينَ